
قومی اسمبلی سے 27 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور
اسلام آباد: قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیمی بل ترامیم کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔ بل کے حق میں 234 ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں چار ووٹ آئے۔ منظوری کے بعد بل دوبارہ غور کے لیے سینیٹ کو بھجوا دیا گیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم کی تحریک پیش کی۔ ترمیم پر شق وار ووٹنگ کا عمل شروع ہوا، جس کے دوران اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے دھرنا دے دیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف، صدر ن لیگ نواز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی شریک ہوئے۔ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی وزرا نے نوازشریف کا استقبال کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی ایوان میں موجود تھے، پیپلزپارٹی کےخورشیدشاہ کو ویل چیئر پر ایوان میں لایاگیا، خورشید شاہ علالت کے باعث اسپتال میں زیر علاج تھے۔
وفاقی آئینی عدالت کے قیام، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیلِ نو سے متعلق ترامیم منظور
صدر مملکت اور گورنرز کو آرٹیکل 248 کے تحت تاحیات استثنیٰ دینے کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ تک عہدے پر برقرار رہیں گے، جس کے بعد آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میں سے سینیئر جج چیف جسٹس آف پاکستان کہلائے گا۔
فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کے رینکس کو آئینی تحفظ حاصل
ترمیم کے ذریعے فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کے رینکس کو آئینی تحفظ دے دیا گیا ہے۔ ان کے عہدے، مراعات اور وردی کو تاحیات برقرار رکھا جائے گا، اور انہیں آرٹیکل 47 میں درج طریقہ کار کے علاوہ ہٹایا نہیں جا سکے گا۔ وفاقی حکومت قومی مفاد میں ان عہدوں کے حامل افراد کی نئی ذمہ داریاں بھی طے کر سکے گی۔
وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد میں اضافہ
آئین کے آرٹیکل 93 میں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کے مشیروں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر سات کر دی گئی ہے، جبکہ صوبائی سطح پر بھی مشیروں کی تعداد میں یہی اضافہ کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 105 میں ترمیم کے مطابق گورنر اب نگران کابینہ کی تشکیل آرٹیکل 224 یا 224 اے کے تحت کریں گے۔ آرٹیکل 130 میں ترمیم کے بعد صوبائی کابینہ کا حجم اسمبلی کے 15 فیصد یا 17 ارکان سے زیادہ نہیں ہوگا۔
وفاقی آئینی عدالت کے ججز کے تقرر اور مدتِ ملازمت کا طریقہ کار واضح
آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔ عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے، جبکہ دیگر ججز چاروں صوبوں سے مساوی نمائندگی کے اصول کے تحت تعینات ہوں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے کم از کم ایک جج کو بھی اس عدالت میں شامل کیا جائے گا۔ چیف جسٹس اور ججز کی مدت ملازمت تین سال اور عمر کی حد 68 سال مقرر کی گئی ہے۔
جوڈیشل کمیشن کی تشکیلِ نو، ازخود نوٹس کا اختیار ختم
آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی تشکیلِ نو کی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹسز کمیشن کے رکن ہوں گے، جبکہ دونوں عدالتوں کے ایک ایک سینئر ترین جج بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ مشترکہ نامزدگی پر ایک اضافی جج دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنے گا۔ کسی معاملے پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں فیصلہ کثرتِ رائے سے کیا جائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے نامزد کردہ خاتون، غیر مسلم یا ٹیکنوکریٹ ممبر کے لیے دو سال کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔
بطور چیف جسٹس نامزد ہونے والے جج کے انکار پر ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 184 کو حذف کر کے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا نیا طریقہ کار متعارف
آرٹیکل 200 میں ترمیم کے تحت ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب ججز کے تبادلے صدر مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کریں گے۔
آئین میں کی گئی کسی ترمیم پر عدالتوں کو سوال اٹھانے کا اختیار ختم
آرٹیکل 239 میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ آئین میں کی گئی کسی ترمیم پر کسی بھی عدالت کو کسی بنیاد پر سوال اٹھانے کا اختیار نہیں ہوگا۔
چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز کہلائیں گے
آرٹیکل 243 میں ترامیم کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف اب چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔ 27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔ وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے، جو پاک فوج سے تعلق رکھے گا۔
آرٹیکل 6 میں ترمیم، آئین شکنی یا بغاوت کی کسی صورت میں عدالتی توثیق نہیں ہوگی
قومی اسمبلی میں آرٹیکل 6 کی شق 2 اے میں ترمیم منظور کی گئی ہے، جس کے تحت وفاقی آئینی عدالت کو اس شق میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ترمیم کے بعد کسی بھی شخص یا ادارے کی جانب سے آئین کی تنسیخ، معطلی یا خلاف ورزی کے اقدام کو کسی عدالت، بشمول وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی جانب سے توثیق نہیں دی جا سکے گی۔
ذرائع کے مطابق بغاوت سے متعلق آرٹیکل میں یہ اضافہ آئینی بالادستی کو مزید مضبوط بنانے اور آئین شکنی کی کسی بھی صورت میں عدالتی منظوری کے دروازے بند کرنے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔

Average Rating