
علامہ اقبال کے فلسفے میں گلِ لالہ: حریت، خودی اور جمالیات کا استعارہ
Read Time:25 Minute, 25 Second
علامہ اقبالؒ کے کلام میں جس طرح فلسفہ خودی بنیادی عنصر ہے اور دیگر تمام فلسفہ ہائے فکر اسی سے ترتیب پاتے اور نکھرتے چلے جاتے ہیں ،اسی طرح ان کے ہاں جو مختلف نباتات استعمال ہوئے ہیں ،ان میں پھول بھی ہیں اور پھل بھی ، درخت بھی ہیں اور شجر بھی، بیج بھی ہیں اور دانے بھی۔ انہوں نے بہت سے پھولوں کو اپنے اشعار کی زینت بنایا اور بعض کو اصطلاحاً ، تشبیہاً، استعارۃً استعمال کیا ہے۔ پھولوں میں گلِ لالہ ایسا پھول ہے جو علامہ اقبال کو بے حد پسند ہے اور اس کا ذکر ان کے کلام میں کثرت سے ملتا ہے۔ کہیں وہ اسے سیاسی اصطلاح کے طو ر پر استعمال کرتے ہیں توکہیں اسے ملت اسلامیہ کے لےے استعارۃً استعمال کرتے ہیں ۔ کہیں اسے دین کے لےے تو کہیں اپنی
فکر ودانش کے اظہار کے لےے استعمال کرتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو لالہ ایک یسا پھول ہے جس کا استعمال بیشتر شعرا کے ہاں مل جاتا ہے۔ شعرانے اسے، اس کے سرخ رنگ کی وجہ سے خون سے مشابہ قرار دیا ہے اور اس کا استعمال اکثر شعرا کے ہاں تشبیہہً اور استعارۃً ملتا ہے۔ مختلف شعرا کے کلام سے چند منتخب اشعارِ پیش کیے جارہے ہیں تاکہ اس پھول کی اہمیت اظہر من الشمس ہو سکے۔
سجادہ بدوش لالہ یک سو
یک سو شب زند ہ دار شبو
محسنؔ کاکوروی
جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
لبا لب اپنے لہو کا پیا لہ کیا کرتا
آتشؔ
جوں جوں کہ پڑیں منہ پہ تیرے مینہ کی بوندیں
جوں لالہئ تر حسن تیرا اور بھی چمکا
مصحفیؔ
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
غالبؔ
لالہ کے ما نند ہم اس با غ میں
داغ لینے آئے تھے لے کر چلے
بہار لالہ و گل پھر کبھی کاہے کو دیکھیں گے
رہے ہیں اس چمن سے ہم نگاہ واپسیں ہو کر
امیرؔمینائی
کہہ کے کچھ لالہ وگل رکھ لیا پردہ میں نے
مجھ سے دیکھا نہ گیا حسن کا رسوا ہو نا
اصغر گونڈوی
بہار لالہ وگل شوخی ئبرق وشررہو کر
وہ آئے سامنے لیکن حجابات نظر ہو کر
جگرؔ مرادآبادی
شفق ہے آسمان پر لالہئ گل باغ و صحرا میں
دکھاتا ہے شہیدوں کا لہو رنگینیاں اپنی
چکبست
چمن فروز،چمن سوز،لالہ زار ہوں میں
خزاں ہے جس کے تعاقب میںوہ بیمار ہوںمیں
گل و لالہ پہ آخر کر رہا ہے غور کیا گلچیں
یہ وہ خون ہے جو ٹپکا تھاکبھی چشم عنادل سے
جگ موہن لال
اٹھ اور زمیں نیا لالہ زار پیدا کر
نہ آئی جو کبھی وہ بہار پیدا کر
جوشؔ
جھپک جھپک سی گئی ہے بہار لالہ و گل
تری نگاہ سے چنگاریاںسی کچھ تو اڑیں
فراقؔ
جب تری دھن میں کہیں لالہئ صحرا دیکھا
ہم یہ سمجھے کہ ترا نقش یکف پا دیکھا
احمدؔ ندیم قاسمی
گل کھلایا ہے کیا بہاروں نے
خون اچھالا ہے لالہ زاروں نے جان
نثاراخترؔ
سبزہ و برگ و لالہ و سرو سمن کو کیا ہو
سارا چمن اداس ہے ہائے چمن کو کیا ہوا
مجازؔ
یہ مثالیں جو آپ نے ابھی ابھی ملاحظہ کی ہیں، ان میںلالۂ یک سو، مانندِ لالہ،لالۂ تر، لالہ و گل، لالہ زار، گل و لالہ ،لالۂ صحرا اور برگ و لالہ جیسے مرکبات ِ اضافی و عطفی استعمال کرکے اشعار کی معنوی حیثیت کو بڑھایا گیا ہے۔علامہؒ کے کلام میںیہ مرکبات مختلف تراکیب کی شکل اختیار کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف اشعار کی معنوی حیثیت بڑھتی ہے بلکہ ان میں تسلسل، روانی، فکر و فلسفہ اورروشن مستقبل کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔ جس طرح
انہوں نے گل کی دو طرح کی تراکیب استعمال کی ہیں اسی طرح لالہ بھی ان کے کلام میں دو مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ مثلاََ: داغِ لالہ، تمیزِ لالہ،پردئہ لالہ، چراغِ لالہ، گلِ لالہ،شرابِ لالہ گوں، خفتگانِ لالہ زار، ضمیرِ لالہ، عروسِ لالہ، برگ ہائے لالہ، لولوے لالہ، آبِ لالہ گوں،ساقیٔ لالہ فام، سکوتِ لالہ، مئے لالہ فام، داغِ لالہ فشاں، لالۂ صحرا، لالۂ صحرائی، جگرِ لالہ، قافلۂ لالہ، پیرہنِ لالہ، گریبان ِ لالہ،چراغ ِلالہ،فضائے لالہ، فروغ لالہ، شوخیٔ لالہ، نصیبِ لالہ،مثالِ لالہ، قبائے لالہ، داغِ لالہ، برگِ لالہ، میانِ لالہ، چراغِ لالہ، شاخِ لالہ، د رِ لا لہ، قافلۂ لالہ، ،تختۂ لالہ، عروسِ لالہ،دلِ لالہ، جگر ِ لالہ ، کفِ لالہ، درونِ لالہ، داغِ لالہ،نمودِ لالہ ، آتشِ لالہ ، ورقِ لالہ ، ساحرانِ لالہ، بخونِ لالہ،سر شکِ لالہ،خون ِ لالہ اور لالۂ صحرا،لالہ افسردہ، لالۂ خودرو، لالۂ دک سوز،لالۂ پیکانی، لالۂ آتشیں،لالۂ شعلہ، لالہ ٔ خود رو، لالۂ صحرا ستم، لالۂ ناپائدار ، لالۂ حمراستے، لالۂ کو،درونِ لالۂ آتش،مزاجِ لالۂ خود رو،لالۂ خورشید، لالۂ تشنہ، لالۂ من،لالۂ احمر، لالۂ صبح جیسی خوب صورت تراکیب استعمال کرکے اپنے کلام کو پر کشش اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کلام بنا دیا ہے۔
علامہؒ کے اردوکلام میںسب پہلا استعمال بانگِ درا کی نظم’دردِ عشق‘ میں ملتا ہے جہاں انہوں نے عشق کو جذبۂ ایثار وخدمت کے طور پر پیش کیا ہے۔علامہؒ کی خواہش تھی کہ عشق کی وہ حالت جو قرونِ اولیٰ میں تھی ، وہی آج کے دورِ فساد و انتشار میں پھر سے بے دار ہو جائے مگر جب وہ گردو نواع میں دیکھتے تھے تو انہیں تصنع اور بناوٹ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔علامہؒ کہتے ہیں کہ اگر دردِ عشق زمانے کی ناہمواریوں کی وجہ سے الگ تھلگ ہو جائے تو لالے کا پیالہ شرابِ عشق سے محروم ہو جائے اور شبنم کے آنسو پانی کے قطرے بن جائیں۔
خالی شراب ِ عشق سے لالے کا جام ہو پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
علامہؒ نے ٥٠٩١ میں برطانیہ کے لےے رختِ سفرباندھا لیکن اس سے پہلے وہ بانگِ درا کی تصنیف کا کام شروع کر چکے تھے اگرچہ یہ شائع ین کی وطن واپسی کے بعد ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے انگلستان جانے سے پہلے پانچ طویل نظمیں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں پڑھیں جنہیں بڑی پذیرائی ملی۔ ان میں نالئہ یتیم، یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے، اسلامیہ کالج کا خطاب مسلمانانِ پنجاب سے، ابرِ گہر بار یا فریادِ امت اور تصویرِ درد شامل ہیں۔ تاہم جب انہوں نے بانگِ درا شائع کی تو اوّل الذکر چار کو اس میں
شامل نہ کیا ۔صرف فریادِ امت کا ایک بند دل کے عنوان سے باقی رکھا،جب کہ موخّرالذکر اس میں شامل کر لی گئی۔اس نظم کے تمہیدی بند میں وہ اپنے پسندیدہ پھول لالہ کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
علامہؒ اپنے اس سفر کے دوران جب دہلی پہنچے تو مزارِ حضرت نظام الدین اولیا پر ـ’التجائے مسافر‘ پڑھی۔ پہلے بند کا اختتام فارسی شعر پر کیا،جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرا دل اگر سیاہ ہے تو سمجھنا چاہیے کہ تیرے لالہ زار کا داغ ہوں اور اگر خنداں پیشانی ہوں تو تیری بہار کا پھول ہوں۔
اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ توام
وگر کشا دہ جبینم ، گلِ بہارِ توام
علامہؒ فرقہ بندی اور گروہ بندی کے سخت خلاف تھے اور اسے امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اس کی مذمت کی اور اپنے کلام میں بھی جا بجا اپنے خاص انداز میں اس کی مذمت کی ہے۔ بانگِ درا حصہ اوّل کی ایک غزل میں اس مضمون کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے جب کہ نظم ’ محبت‘ میں انہوں نے اس کی تین بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں اور نظم کے آخری شعرمیں کہا ہے کہ محبت ہی کی بدولت آفتابوں اور ستاروں نے مقامِ ناز حاصل کیا ، کلیاں کھل اٹھیں اور لالے نے یہ سب کچھ اپنے سینے میں نقش کر لیا جو دا غ کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ نظم ’کوششِ ناتمام‘ میں علامہؒ نے لالے کو حسنِ مطلق سے تعبیر کیا ہے۔کہتے ہیں کہ وہ حسنِ ازل جو لالے اور گلاب کے پردے میں چھپا ہوا ہے ،وہ اس لیے بے قرار ہے کہ اس کا جلوہ عام ہو جائے۔ مجموعی طور پر علامہؒ نے اس نظم میں متحرک رہنے کا درس دیا ہے اور یہ درس درحقیقت ان کے کلام کی اساس ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو متحرک دیکھنے کے خواہاں تھے۔
تمیزِ لالہ و گل سے ہے نالہ ٔ بلبل جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیاز کرے
خرامِ ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے چٹک غنچے نے پائی ، داغ پائے لالہ زاروں نے
حسن ازل کہ پردئہ لالہ وگل میں ہے نہاں کہتے ہیں کہ بے قرار ہے جلوئہ عام کے لیے
علامہ ؒ کے کلام کا دوسرا دور ان کے قیامِ یورپ ٥٠٩١ سے شروع ہوکر٨٠٩١ یعنی ان کی وطن واپسی تک کا دور ہے۔ قیامِ یورپ کے دوران ان خیالات میں کئی تبدیلیاں آئیں جن کا اظہار انہوں نے نہ صرف نظم میں کیا بلکہ اپنے خطوط میں بھی کیا۔ انہوں نے ٧٠٩١ میں ایک نظم نما غزل لکھی جس میں اپنے نئے افکار و خیالات کا ذکر کیا۔بقول غلام رسول مہر:
’ یہ غزل جیسا کہ اقبال نے خود لکھا ہے مارچ ٧٠٩١ میں کہی تھی اور غالباً اسی مہینے کے مخزن میں چھپ گئی تھی۔ ان کے فکر و نظر میں جو انقلاب ولایت پہنچتے ہی شروع ہوا تھا ، وہ کوئی ڈیڑھ برس میں آخری منزل پر پہنچا۔۔۔۔اگر ان کی تعلیمات کا ابتدائی نقشہ دیکھنا ہو جو بعد ازاں دنیا بھر کے لیے خاص جذب و کشش کا مرجع بنے تو وہ یہی غزل یا نظم ہے۔‘ ذرا غور کیجیے کہ ایک ایسی غزل جو علامہ ؒ کی تعلیمات کی ابتدا ہے اس میں بھی انہوں نے لالے کو فراموش نہیں کیا اور اس کے سرخ رنگ اور سیاہ داغ سے اپنے مافی الضمیر کے بیان میں بھرپورکام لیا ہے۔ کہتے ہیںکہ باغ میں لالہ ہر خاص و عام کو اپنا داغ دکھا رہاہے حالانکہ وہ اس بات سے بحوبی آگاہ ہے کہ ایسا کرنے سے دوسرے اسے دل جلا سمجھیں گے لیکن اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ ایسا کرکے دکھ اور درد کا غماز اور عکاس بننا چاہتا ہے۔
نظم ـ’بلادِ اسلامیہ ‘ کے دوسرے بند میں علامہ ؒ نے لالہ کو تہذیبِ حجاز کی علامت کے طور پرپیش کیا ہے اور شکوہ میں انہیں ان لالوں کی تلاش ہے جن کے دل میں تڑپ اور سینے میں محبت کے داغ ہوں۔
چمن میںلالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
نظم ’ بزمِ انجم‘ کا آغاز ہی لالے کے خوب صور ت استعمال سے کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے درج ذیل شعر:
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
علامہؒ لالہ کوجب لالہ صحرائی کہتے ہیں تو ان کے سامنے پوری تہذیبِ حجاز ہوتی ہے۔وہی تہذیب جو سادگی اور پا کیزگی کی منہ بولتی تصویر تھی اور جس کے نشانات صحرا اور مرغزار پیش کرتے تھے۔چنانچہ انہیں لالہ میںاورتہذیبِ حجاز میں بہت سی ا قدارِ مشترک نظر آتی ہیں جیسے ، صحرائی مکین کوئی مستقل وطن نہیں رکھتے اسی طرح لالہ بھی ہر جگہ نشو و نما پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر کہتا ہے:
در جہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم
نے نصیب محفلے، نے قسمتِ کاشانہ
جواب میں شمع کہتی ہے:
ےوں تو روشن ہے ، مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا
بات کسی ثبوت کی محتاج نہیں کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے اور انہو ں نے اپنے کلام میں جا بجا اپنی اس محبت کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی امتِ مسلمہ زبوں حالی اور پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ نظم ـ’ حضور رسالت مآب میں‘ لالے کااستعاراتی استعمال ملاحظہ ہو:
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
علامہؒ کی شہرہ آفاق نظموں میں سے ’شکوہ‘ او رـ’ جوابِ شکوہ‘ اپنے بیان اور زورِ بیان کے حوالے سے خاص مقام رکھتی ہیں کہ ان میں علامہؒ نے امتِ مسلمہ کی بے بسی اور لاچارگی کی تصویر کشی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ ہر کس و ناکس آنسو بہائے بنا نہیں رہتا۔ ’جوابِ شکوہ ‘کے آٹھویں بند میں لالہ کا استعمال نہایت دلکش و دلفریب ہے۔ نظم ’شاعر‘ میں کہتے ہیں کہ نغمہ پیدا کرنے والی ندی بہار کے مے خانے سے سرخ شراب پی کر پہاڑ سے وادیوں میں آتی ہے یعنی موسمِ بہار میںجب پہاڑوں پر بارش ہوتی ہے تو ندیاں اور نالے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ علامہ کہتے ہیں کہ بارش کا یہ پانی ندیاں نغمے الاپتی ہوئی لے کروادیوں میں داخل ہوتی ہیں اور انہیں سر سبز و
شاداب کر دیتی ہیں۔اس خوبصورت تبدیلی پر نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند سبھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ علامہ کو مناظرِ فطرت کی تصویر کشی میں بڑا ملکہ حاصل ہے ،چنانچہ درج ذیل شعران کے اس فن کا منہ بولتا ثبوت ہے؛
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہ رعنائی تھا نازشِ موسمِ گلِ لالہ صحرائی تھا!
جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے پی کے شرابِ لالہ گوں مے کدئہ بہارسے
علامہؒ نے نہ صرف نظم کی مروجہ اقسام میں اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ ہیت کے نئے تجربات بھی کیے۔ ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال ٥١٩١ میں ہوا،اس موقع پر انہوں نے جو مرثیہ کہا وہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘ میں انہوں نے لالہ کو زورِ بیان کے لیے استعمال کیا ہے اور اس سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ لالہ علامہؒ کا انتہائی پسندیدہ پھول ہے جسے وہ کسی بھی اہم موقع پر نظر انداز نہیں کرتے۔
سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ وگل ہیں تو کیا؟
نالہ وفریاد پر مجبور ہیں تو کیا؟
اسی نظم کے بارھویں بند میں رات کے بعد صبح کا منظر پیش کرتے ہوئے لالہ افسردہ اور خفتگانِ لالہ کی خوب صورت تراکیب استعمال کی ہیں:
پردئہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامنِ آفاق سے دھوتی ہے صبح
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سر مست نوا کرتی ہے یہ
سینئہ بلبل کے زنداں سے سرودِ آزاد ہے
سینکڑوں نغموں سے باد صبح دم آباد ہے
خفتگان لالہ زار کو ہسار و رودبار
ہوتے ہیں آخر عروسِ زندگی سے ہمکنار
یہ اگر آئین ِ ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح؟
٢٢٩١ میں انجمن حمایتِ اسلام کے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں علامہ اقبالؒ نے اپنی طویل نظم ’خضرِ راہ‘ پڑھی۔ نظم کا مضمون ایسا دلگیر اور پرسوز ہے کہ بقول مولوی غلام رسول مہر نظم پڑھنے کے دوران کئی مقا مات پر علامہ پر رقت طاری ہو گئی وہ خود بھی اشکبار ہوئے اورجنعے کو بھی رونے پر مجبور کر دیا۔ درحقیقت یہ زمانہ عالمِ اسلام کے لےے انتہائی دشوار تھا۔ مسلمان ہر طرف اپنی کوتاہیوں کی بدولت ذلیل و رسوا ہورہے تھے، (آج پھر ویسی ہی صورت ِحال لیکن راستہ دکھانے کے لےے کوئی اقبال نہیں)جس کا انہیں بہت دکھ تھا،چنانچہ اپنے جذبات کا اظہار انہوں نے اس نظم کے ذریعے نہایت مہارت سے پیش کیا۔ نظم کے ذیلی عنوان’دنیائے اسلام‘ میں اہلِ ایران کی ذلت و رسوائی کے اظہار کے لیے لالہ کا استعارہ نہایت موزوں ہے۔
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ !
جو سراپا ناز تھے ،آ ج ہیں مجبور نیاز!
بانگِ درا کی اشاعت سے ایک برس قبل یعنی ٣٢٩١ میں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں علامہ نے اپنی شہرہ آفاق نظم’طلوعِ اسلام‘ پڑھی۔اس نظم کی خاص اہمیت اس لےے بھی ہے کہ اس کے بعد علامہؒ نے کوئی طویل نظم انجمن کے اجلاس میں نہ پڑھی۔جنگِ عظیم اوّل کے اختتام پر عالمِ اسلام کے ایک اور دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ مسلمان ایک مرتبہ پھر اپنی آزادی کے حصول کے لےے اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو ایک خوش آئند بات تھی۔ یہ سب علامہؒ کے سامنے تھا۔یہی وجہ ہے کہ یہ پوری نظم احیائے اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃِثانیہ پر مسرت کے جذبات سے لب ریز ہے۔ساتھ ہی ساتھ لالہ کی علامت بھی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ میں نے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ لالہ کی علامت علامہؒ نے مومن اور مسلمان کے لےے بھی استعمال کی ہے چنانچہ ذیل کی مثال سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے۔
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کر دے
اسی نظم میں لالہ کی علامت کا اور خوب صورت استعمال دیکھےے:
حنابند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے
اسی نظم کے آخری بند میںعلامہؒ نے نئے دور میں داخل ہونے کی نوید سنائی ہے اور قوم کو بتایا ہے کہ شہید کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ میں شہید کی تربت پر لالے کے پھو ل چڑھا رہاہوں کیونکہ اس کا خون ملتِ اسلامیہ کے شجر کو بہت راس آیا ہے۔
سرِ خاک ِ شہیدے برگ ہاے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ ملتِ ماسازگارآمد
بانگِ درا حصہ سوم کی غزلیات میں بھی انہوںنے لالہ کی علامت مسلمانوں کے لےے استعمال کی ہے۔ فرماتے ہیںکہ اے اللہ!میری قوم کے لوگ(لالے) تیری نظرِ کرم کے محتاج ہیں ، تو ان پر اپنا رحم وکرم فرما:
ابرِ نیساں ! یہ تنک بخشئی شبنم کب تک؟ مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بالِ جبریل میں بھی لالہ کا علامتی اور استعارتی استعما ل جاری رہتا ہے ۔ ایک غزل میں کہتے ہیں کہ ایران کی آب وگل آج بھی وہی ہے جو مولانا روم کے زمانہ میں تھی اور شہرِ تبریز اب بھی اپنی جگہ ہے لیکن کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اب ان لالہ زاروں سے نہ تو کوئی شمس تبریز پیدا ہورہاہے اور نہ کوئی رومی جیسا ہی جنم لے رہا ہے۔غالباََ ؓبتانا یہ مقصود ہے کہ دورِ حاضر میں نہ تو شمس جیسے روحانی استاد ہیں اور نہ رومی جیسے سیکھنے والے لیکن اس کے باوجود علامہؒ اپنی کشتِ ویراں سے مایوس نہیں ہیں ، بس اسے زرخیز ی کے لیے تھوڑی سی نمی درکار ہے۔ ایک اور غزل میں وہ سکون کے متلاشی نظر آتے ہیں اور ایسی پر سکون جگہ چاہتے ہیں جہاں ہر سو لالے کے پھو ل کھلے ہوئے ہوں۔غزل مذکور ہی میں مزید کہتے ہیں کہ رنگین اور دلکش شعر کہنے والے کی نگاہوں میں ایسا جادو ہے کہ اس کے فیض سے لالہ و گل حسین تر ہو جاتے ہیں۔جب کہ دوسری جگہ کہتے ہیں کہ حسنِ معانی کو میری مشاطگی کی قطعاََ ضرورت نہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ فطرت خود لالے کی حنا بندی کرتی ہے یعنی وہ اگتا ہی سرخ رنگ کے ساتھ ہے اس لیے اسے مزید کسی سے حنا لگوانے کی ضرورت نہیں پڑتی اسی طرح میری شاعری کی نوک پلک سنوارنے
کی ضرورت نہیں کیونکہ دل نشیں کلام کو مزید سنوارنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود بخود دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ایک اور غزل کے پہلے ہی شعر میں لالہ کا ذکر کیا ہے جہاں اس کی سرخ رنگت کو شراب سے مشابہ قرار دیاہے کہ جیسے ہی ضمیرِ لالہ مئے لعل سے لبریز ہوا تو صوفی نے جو مئے عشق سے پر ہیز کی ہوئی تھی ، وہ توڑ دی اور عشق کی شراب پینے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس شعر کا مفہوم بیان کرنے میں کچھ ناقدین کو سہو ہوا ہے جنہوں یہاں شراب سے مراد اصل شراب لے لی حالانکہ ایسا نہیں ہے اور یہ کلامِ اقبال سے دوری اور بغض کی وجہ سے ہو سکتا ہے ورنہ اگر کلامِ اقبال کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا جائے تو حقیقت کھل جاتی ہے۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
علامہؒ کی غزلوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں بیان ہونے والے مضامین نظم کی طرح ہوتے ہیں گویا ان کی غزلوں میں بھی نظموں کی ہیت کا تاثر ابھرتا ہے۔ بالِ جبریل کی غزلیں اس کی بہترین امثال ہیں۔ہندوستان پر انگریزوں کی حکمرانی ان کی ایک غزل کا موضوع ہے ، جہاں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ مسلمان ایماندار اور باکمال ہونے کے باوجود ذلیل و خوار ہیں جب کہ گدھے کی خصلت والے یعنی نکمے اور ناکارہ لوگ مزے کر رہے ہیں۔ عقل مند اور باکمال لوگوں کو بڑا عہدہ تودور کی بات ہے ، ان کے حصے میں تو گھاس کی پتی بھی نہیں آتی جب کہ انگریز نا اہلوں کو بڑے بڑے عہدے بانٹ دیتے ہیں۔ یہاں انہوں نے درحقیقت انگریزوں کی ناانصافی پر کڑی تنقید کی ہے۔علامہؒ قانون دان تھے اس لیے انہیں اس بات کا علم تھا کہ کس حد تک حکومتِ وقت پر تنقید کی جاسکتی۔ دوسری چیز جو اس غزل میںہے وہ اس کا اسلوب ہے جو ان کی نظم شکوہ سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی ہے کہ اے ربِ کائنات تیرے بندے ذلیل و خوار ہیں جب کہ تیری عبادت و ریاضت
سے عاری لوگ عیاشی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ایک اور غزل میں چراغِ لالہ کی ترکیب استعمال کی ہے اور سورج کے لیے استعارہ بھی کیا ہے ۔ صبح بہار کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چراغِ لالہ نے پہاڑوں اور وادیوں کو روشن کر دیا ہے۔باغ میں پرندے گیت گا رہے ہیں اور مجھے بھی ایک بار پھر نغمے گانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ غزل چوبیس میں نسیمِ سحر ، گلِ لالہ سے مخاطب ہو کر کہتی ہے ۔اے گلِ لالہ! تو اپنے حسن و جمال کی بدولت پر کشش ہے لیکن تو مجھ سے پردہ کیو ںکررہا ہے ۔ میں تو نسیم ِ سحر اور تجھے شاداب کرنے کے لیے آئی ہوں اس لیے مجھ سے حجاب کرنا مناسب نہیں ۔ غزل سینتیس میں خودی کا مضمون بیان ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم اپنی خودی کو کھو چکے ہو اسے پھر سے حاصل کرنے کی کو شش کرو۔جس طرح تاروں کی فضا بے کرانہ ہے تم بھی اپنے اندر ایسی ہی آرزو پیدا کرو اور تمہارے چمن کی حوریں حوریں برہنہ ہورہی ہیں۔اس لیے مشورہ دیا گیا ہے کہ جیسے بھی ہو گل ولالہ کے چاک سی لو تو ان حوروں کی برہنگی دور ہو جائے گی اور وہ پھر سے پردے میں چھپ جائیں گی۔ غزل پچپن میں دیکھیے لالے کے باغ میں پروان نہ چڑھ پانے کی کیسی نرالی وجہ بیان کی ہے کہ لالہ باغ میں اس لیے نہیں پنپتا کیونکہ اسے یہاں وہ آزاد ماحول میسر نہیں آتا جو صحرائوں اور پہاڑوں میں ہوتا ہے ۔
تو برگِ گیا ہے نہ دہی اہلِ خرد را
او کشتِ گل و لالہ بہ بخشند بہ خرے چند
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن
کہ ساز گار نہیں یہ جہانِ گندم و جو
بال جبریل کی ایک رباعی میں لالہ استعارۃََ استعمال ہو ا ہے۔ علامہ ؒ کہتے ہیں کہ چمن میں پھولوں کا لباس شبنم سے تر ہے اور باغ کے اندر قسم قسم کے پھول کھلے ہوئے ہیں جو اس کی بہار کو چار چاند لگا رہے ہیں لیکن باوجود اس کے باغ کے اندر کو ئی ہنگامہ برپا نہیں ہے ۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ لالہ کا پھول باغ میں ہنگامہ آرائی کا موجب بنتا ہے لیکن لالہ ہی اس ہنگامے سے دور ہے اس لیے چمن میں کسی قسم کا ہنگامہ نہیں ہو رہا۔یہاں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ دنیا میں طرح طرح کی چیزیں موجود ہیں لیکن وہ کسی کام
اس لیے نہیں آرہیں کی ان کو زیرِ استعمال لانے کے لیے محنت اور دماغ کی ضرورت ہوتی اور دورِ حاضر کا مسلمان ان سب چیزوں سے بہت دور ہے اس لیے جب تک مسلمانوں کے اندر ہنگامہ پیدا کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہو تا اور وہ اپنے سوزِ جگر کو زندہ نہیں کرتے تب تک وہ ترقی بھی نہیں کر سکتے۔
چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
نظم ’دعا‘ جو علامہ ؒ نے مسجدِ قرطبہ میں لکھی، میں انہوں نے یہ باور کرایا ہے کہ نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے سے دل منور ہو جاتا ہے نیز ایسے لوگوں کو اللہ کی قربت میسر آتی ہے اور یہ وجد میں آجاتے ہیں ۔ ان کی مثال اس لالے جیسی ہو جاتی ہے جو لب آبجو اگا ہو اور پانی کی لہریں اسے ہمہ وقت تر وتازہ اور سرسبز و شاداب رکھیں اور اس کی سرخی ایسے روشن ہو جیسے گویا چراغ جل رہاہو۔ علامہؒ کے اس شعر کو پڑھ کر مجھے لگا کہ جیسے علامہؒ کے سامنے مسلم کی درج ذیل حدیث رہی ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے گشتی فرشتے ہیں جو مجالس ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیںاور جیسے ہی انہیں ذکر کی مجلس ملتی ہے تو وہ اس می بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہوئے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں حالانکہ وہ انہیںبہت اچھی طرح جانتے ہیں۔’تم لوگ کہا ں سے آئے ہو؟‘وہ جواب دیتے ہیں کہ’ہم زمین سے تیرے بندوں کے پاس سے آرہے ہیںجوکہ تیری پاکی اور بڑائی، تیری توحید اور تیری حمد بیان کرتے ہوئے تجھ سے مانگ رہے تھے۔‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’ وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟‘فرشتے کہتے ہیں کہ ـ’ وہ تجھ سے تیری جنت طلب کر رہے تھے۔‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔’کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟‘فرشتے کہتے ہیں کہ’ اے اللہ!دیکھی تونہیں‘تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تم تصور توکرو)’اگر انہو ں نے جنت دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟‘ فرشتے کہتے ہیں کہ’ وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے۔‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’ کس چیز کی پناہ مانگ رہے
تھے؟‘تو وہ کہتے ہیں کہ’ اے اللہ تیری آگ سے۔‘اللہ فرماتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ ’اے اللہ دیکھی تو نہیں۔‘ اللہ فرماتا ہے (تم تصور کرو)’اگر انہوں نے میری آگ دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟‘وہ کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ تجھ سے استغفار کررہے تھے۔‘ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :میں نے ان کی مغفرت کردی اور وہ جو مانگ رہے تھے میں نے ان کو عطا کردیااور جس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے میں نے ان کو عطا کر دی۔ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیںکہ’اے اللہ !ان میں فلاں گناہ گار بند وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔‘ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،’میں نے اسے بھی معاف کر دیاکیونکہ یہ ایسے لوگ ہیںکہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘
فی الواقعہ ایسے لوگوں کو اللہ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے جو صاف دل اور نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔
صحبت اہلِ صفا ، نورو حضور و سرور
سر خوش وپرسوز ہے لالہ لبِ آبجو
نظم ’طارق کی دعا‘ علامہ ؒ کی چند ان نظموں میں سے ہے جو زبان زدِ عام ہیں ۔اس نظم میں انہوں نے طارق کی زباں سے ان احساسات کو بیان کیا ہے جو سرزمینِ ہسپانیہ پر قدم رکھتے ہوئے مجاہدینِ اسلام کے تھے۔ طارق بن زیاد نے ساحل پر اترنے کے بعد کشتیاں جلا دالی تھیں تاکہ کسی مجاہد کے دل میں شکست خوردہ ہو کر واپس جانے کا خیال تک نہ آئے۔ علامہؒ کہتے ہیں کہ ہسپانیہ کا لالہ مدتوں سے اس بات کا منتظر تھا کہ اہلِ عرب یہاں آئیں ، اپنا خون بہائیں اور یوں اس کا سرخ لباس تیار ہو۔کلامِ اقبالؒ میںلالہ چونکہ اسلام اور مسلمان کی علامت ہے اس لیے یہاں لالے کو جو خونِ عرب کی قبا چاہیے اس مراد یہ ہے کہ یہ سرزمین بھی اسلام کے رنگ میں رنگ جائے اور یہاں بھی اسلام کا بول بالا ہو جائے، ہسپانیہ کی فضائوں میں بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام بلند ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے مجاہدینِ اسلام جذبۂ شہادت سے لبریز ہو کر یہاں آگئے ہیں ، انہیں فتح و نصرت سے سرفراز فرما۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
نظم ’گدائی‘ میں علامہ ؒ نے حاکموں اور جاگیر داروں کی عیش وعشرت اور کسانوں کی محنت و مزدوری کو موضوع بنایا ہے ۔ نظم کے تیسرے شعر میں لالہ کو سرخ شراب کے لیے تشبیہہََ استعمال کیا ہے ۔
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اقبال:کلیاتِ اقبال اردو ص 117/409بالِ جبریل ا، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، لاہور ،1977 اشاعت سوم
بالِ جبریل میں علامہؒ نے لالۂ صحرا کے عنوان سے ایک پوری نظم لکھ کرلالہ کی اپنے کلا م میںاہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ اس نظم مین انہوں نے دلی جذبات کی ترجمانی کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ لالہ کو صحرا کیوں پسند ہے، وہ کسی باغ کی زینت بننے کے بجائے پہاڑوں ، صحرائوںاور جنگلوں میں اگنا کیوں پسند کرتا ہے۔
لالۂ صحرا
یہ گنبدِ مینائی! یہ عالمِ تنہائی
مجھکو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو!
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی؟
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میں شعلۂ سینائی
تو شاخ سے کیوں پھوٹا ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبۂ پیدائی! اک لذتِ یکتائی!
غوّاصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں، دریا کی ہے گہرائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی، لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمیٔ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی ، تارے بھی تماشائی!
اے بادِ بیابانی مجھکو بھی عنایت ہو


Average Rating