
بنگلہ دیش دو کوڑی کی قوم، ہمارے سامنے ان کی کوئی اوقات نہیں، بھارت
اسلام آباد: ریٹائرڈ بھارتی میجر اور دفاعی تجزیہ نگار گورو آریا نے حال ہی میں ایک ٹی وی پروگرام میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف شدید زہر اُگلا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
“بنگلہ دیش دو کوڑی کی قوم ہے، ان کی اوقات نہیں کہ وہ ہمارے سامنے کھڑے ہو سکیں۔”
ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھارت کا “اصل دشمن” قرار دیا۔ یہ بیان محض ایک فرد کی زبان سے نکلی ہوئی تلخ بات نہیں، بلکہ یہ بھارت کی ریاستی پالیسی کی جھلک ہے، جو اپنے تمام ہمسایہ ممالک کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے، خصوصاً ان ریاستوں کو جو کسی زمانے میں متحدہ بھارت یا برصغیر کا حصہ رہی ہیں۔
1971 کا سانحہ: بھارت کی مداخلت اور مقاصد
1971 کا سانحہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نہایت ہی المناک باب ہے۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران اور عسکری کارروائیوں کی آڑ میں بھارت نے کھلم کھلا مداخلت کی۔ بھارتی افواج نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ایک باقاعدہ جنگ چھیڑی، جس کا اختتام 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے سقوط پر ہوا۔
اگرچہ بھارت نے اس کارروائی کو “بنگالیوں کے حقوق کی حمایت” کا نام دیا، لیکن تجزیہ کار متفق ہیں کہ بھارت کا اصل مقصد ایک کمزور ریاست کی تخلیق تھا، جو اس کے اثر و رسوخ میں رہے۔ اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے خود کہا تھا:
“ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں دفن کر دیا ہے۔”
یہ بیان خود اس امر کی دلیل ہے کہ بھارت کی مداخلت صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریاتی اور اسٹریٹیجک مقاصد کے تحت کی گئی تھی۔
آزادی کے بعد بنگلہ دیش پر بھارت کا اثر
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بھی بھارت نے مختلف عسکری، اقتصادی اور سیاسی معاہدوں کے ذریعے نئی ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ دفاعی معاہدے، سرحدی تنازعات میں ثالثی، اور بھارتی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی وہ حربے تھے جن کے ذریعے بھارت نے بنگلہ دیش کی خودمختاری کو محدود رکھا۔
مثال کے طور پر، 1972 کا انڈو-بنگلہ فرینڈشپ ٹریٹی درحقیقت ایک اسٹریٹیجک معاہدہ تھا جو بنگلہ دیش کو بھارت کے دفاعی دائرے میں لے آیا۔ اسی طرح، فراقہ کے پانی کی تقسیم اور چٹاگانگ پورٹ کے کنٹرول جیسے معاملات میں بھی بھارت کی پالیسی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے کی رہی ہے، نہ کہ برادرانہ تعلقات کی۔
حالیہ بھارتی رویہ: “دو کوڑی کی قوم” کہنا محض اتفاق نہیں
ریٹائرڈ میجر گورو آریا کے الفاظ کو بھارت کے ریاستی اداروں کی پالیسی کا خلاصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، بنگلہ دیش بھارت کے سامنے “کھڑے ہونے کی اوقات” نہیں رکھتا۔ یہ زبان صرف جذباتی اشتعال نہیں، بلکہ بھارت کے اس نظریے کی عکاسی ہے جو اپنے پڑوسی ممالک کو “نرم ریاستیں” سمجھتا ہے۔
یہ رویہ صرف الفاظ تک محدود نہیں۔ بھارتی میڈیا، فلم انڈسٹری، اور تعلیمی مواد میں بھی اکثر بنگلہ دیش اور پاکستان کی منفی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ بھارت کے اسٹریٹیجک تجزیہ نگار اکثر بنگلہ دیش کو “بفر زون” یا “جنوبی ایشیائی چھوٹے بھائی” کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کا رویہ: صبر، بھائی چارہ اور امید
اس تمام تر پس منظر کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھائی چارے کا مظاہرہ کیا۔ 1974 میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں بنگلہ دیش کو خوش آمدید کہنا، 2000ء کی دہائی میں تجارتی وفود کا تبادلہ، اور حالیہ برسوں میں تعلیمی وظائف کی پیش کش—یہ سب اقدامات پاکستان کے اخلاص کا ثبوت ہیں۔
عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک کے لوگوں میں گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو جو پذیرائی ملی، وہ دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کی مظہر ہے۔
بھارت کا داخلی بحران اور خارجی دشمن سازی
حالیہ برسوں میں بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ سلوک نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، شہریت ترمیمی قانون (CAA) جیسے متنازعہ اقدامات، اور ہجومی تشدد (Mob Lynching) کے بڑھتے ہوئے واقعات، بھارت کے اندرونی بحران کی نشان دہی کرتے ہیں۔
ایسے میں بھارتی حکومتیں اکثر پاکستان یا بنگلہ دیش کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سفارشات: مستقبل کا راستہ
بھارت کی داخلی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلیمی، ثقافتی، اور تجارتی تبادلوں کو فروغ دے۔
سوشل میڈیا اور سفارتی پلیٹ فارمز پر بھارتی پراپیگنڈے کا مدلل جواب دیا جائے۔
او آئی سی (OIC) اور سارک (SAARC) جیسے فورمز پر بنگلہ دیش سے تعاون کو بڑھایا جائے۔
Average Rating