
بھارتی ریاستوں پر قبضے کے بیان پر بنگلہ دیش حکومت نے وضاحت جاری کردی
ڈھاکہ: بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکیوں کے بعد بنگلہ دیش کے سابق آرمی افسر اور موجودہ عبوری حکومت کے قریبی ساتھی میجر جنرل (ر) اے ایل ایم فضل الرحمٰن نے ایک چونکا دینے والا بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے تجویز دی ہے کہ ’اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو بنگلہ دیش کو چین کے ساتھ مل کر بھارت کے شمال مشرقی علاقوں پر قبضے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔‘
یہ بیان فیس بک پر بنگلہ زبان میں منگل کو پوسٹ کیا گیا جس میں جنرل فضل الرحمٰن نے لکھا، ’اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو بنگلہ دیش کو سات شمال مشرقی بھارتی ریاستوں پر قبضہ کر لینا چاہیے۔ میرے خیال میں ہمیں چین کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ فوجی انتظام کی بات چیت شروع کرنی چاہیے۔‘
جنرل فضل الرحمٰن کو دسمبر 2024 میں محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے نیشنل انڈیپنڈنٹ کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا، جس کا مقصد 2009 میں بنگلہ دیش رائفلز (BDR) میں بغاوت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کرنا تھا۔
گوکہ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے سرکاری طور پر اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، مگر بھارت کی اندرونی بے چینی اور علاقائی حکمت عملی پر یہ بیان گہرا اثر ڈال چکا ہے۔ بھارتی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر اس بیان کو ’خطرناک‘ اور ’بھارت کی خودمختاری کے خلاف کھلی دھمکی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارتی ردعمل کے طور پر نئی دہلی نے اپریل میں بنگلہ دیش کو دی گئی ٹرانس شپمنٹ سہولت منسوخ کر دی، جو اسے مشرق وسطیٰ، یورپ اور دیگر عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے حاصل تھی۔ صرف نیپال اور بھوٹان کے لیے تجارت کی اجازت برقرار رکھی گئی ہے، وہ بھی عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قوانین کے تحت، جو زمین بند ممالک کو تجارت کی سہولت کی ضمانت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ، مارچ میں محمد یونس نے چین کے ایک تجارتی اجلاس میں بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کو ”سمندر سے کٹے ہوئے“ اور بنگلہ دیش کو ”انڈین اوشین کا واحد نگران“ قرار دے کر بھارت کی ناراضی کو مزید ہوا دی تھی۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشیوں، سرحدی کشیدگی اور یکطرفہ تجارتی پابندیوں نے جنوبی ایشیا میں سفارتی تناؤ کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے، اور بھارت کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی کشیدگی کو بڑھا رہا ہے۔
ایک جانب پاکستان بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کر رہا ہے، تو دوسری جانب خطے میں بھارت کے خلاف عوامی اور غیر سرکاری سطح پر مزاحمتی بیانیے زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ جنرل فضل الرحمٰن کا حالیہ بیان اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ اگر بھارت نے جارحیت کی، تو جنوبی ایشیا میں نئی صف بندیاں تشکیل پا سکتی ہیں اور اس بار بھارت کو اپنے شمال مشرقی علاقے بھی بچانا مشکل ہو سکتا ہے۔
کیا بھارت ایک سے زائد محاذ کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ سوال اب خطے کے تمام دارالحکومتوں میں گردش کر رہا ہے۔
Average Rating