اداکارہ حمیرا اصغر کی المناک موت، شوبز کی دنیا اور معاشرے کی شدت پسندی

Read Time:4 Minute, 55 Second

بظاہر تو شوبز کی دنیا بڑی ہی رنگین اور عیاش معلوم ہوتی ہے، شوبز سے وابسطہ لوگوں کی شہرت، نام، مرتبے اور ان کے گلیمر کے چرچے ہر خاص و عام میں پیش پیش رہتے ہیں، یہ جہاں بھی جاتے ہیں سماں باندھ دیتے ہیں لوگ ان کو کاپی کرتے ہیں ان کی طرح جینا چاہتے ہیں، ان کی طرح کھانا، پینا اور اوڑھنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں، تنہائی کا شکار ہوتے ہیں کہیں نا کہیں اندر سے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اداکار جب بھی اپنی گھریلو زندگی کا ذکر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان سے زیادہ رنجیدہ شخص دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ آئے روز شوبز انڈسٹری سے عجیب و غریب واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں جس کی ایک مثال دو ہفتے قبل سئنیر اداکارہ عائشہ خان کی خاموش موت ہے اور اب ایک اور سانحہ ایکٹر اور ماڈل حمیرا اصغر کی شکل میں سامنے آیا ہے، پاکستانی فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کی معروف اداکارہ حمیرا اصغر ایک ایسی شخصیت تھیں کہ جس نے اپنی مختصر سی زندگی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ان کی اچانک موت نے نہ صرف ان کے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ دیا بلکہ ان کا جانا پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں ایک بڑا خلا پیدا کر گیا۔

حمیرا اصغر کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے تھا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی حاصل کی اور بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، حمیرا نے ( این سی اے) لاہور سے (بی ایف اے) اور (ایم ایف اے) کی ڈگریاں حاصل کیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ( ایم فل فائن آرٹس ) کیا، تھیٹر کے شعبے میں 2002 سے سرگرم تھیں، معروف اداروں جیسے “رفیع پیر” اور “الحمرا” کے ساتھ سو سے زائد شوز کا حصہ رہیں۔ اداکارہ نے ماڈلنگ کا آغاز 2013 میں کیا اور بعد میں ڈراموں میں اداکاری میں قدم رکھا۔ اداکارہ بہت ہی کم عمر میں دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں کو پہنچ گئیں اور ایک کامیاب اداکارہ کے طور پر جانی اور مانی جانیں لگیں۔ اداکارہ اس وقت کراچی میں دیفنس فیز 6 کے ایک رہائشی فلیٹ پر رہائش پذیر تھیں ، مئی 2024 سے لے کر اب تک اپنے اپارٹمنٹ کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا جس کے باعث اپارٹمنٹ کے مالک نے اداکارہ پر کیس کر رکھا تھا اور مالک مکان نے اداکارہ سے فلیٹ خالی کروانے کا حکم عدالت سے حاصل کر لیا تھا، 8 جولائی 2025 کو پولیس نے عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے فلیٹ خالی کروانے کے عمل کو شروع کیا اور جب اندر سے دروازہ نہ کھلا تو پولیس کو دروازہ توڑنا پڑا، پولیس کے مطابق جب دروازہ ٹوٹا تو اندر فرش پر پڑی ہوئی اداکارہ کی تین سے چار ہفتے پرانی لاش برآمد ہوئی، پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے کسی قسم کے آثار نہیں ملتے کیونکہ دروازہ اندر سے بند تھا اور اداکارہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی کسی قسم کے تشدد کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، پوسٹ مارٹم رپورٹس میں بتایا گیا کہ اداکارہ ذہنی طور پر بڑے مسائل کا شکار تھیں، پولیس کا کہنا ہے جب اداکارہ کے بھائی کو کال کر کے اطلاع دی گئی تو بھائی نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا کہ والد صاحب سے رابطہ کریں اور جب والد صاحب سے رابطہ کیا گیا تو والد صاحب نے بتایا کہ اداکارہ سے ہمارا اب کوئی تعلق نہیں ہے ہم نے اس سے بہت پہلے ہی اپنا تعلق ختم کر دیا تھا آپ جیسے چاہیں لاش کو دفنا دیں ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، والد کے یہ الفاظ اس قدر کربناک تھے کہ ایک لمحے کے لیے دل تھم سا گیا کہ آخر ایسا کون سا جرم اداکارہ نے کیا ہے کہ جس کے باعث اس کے گھر والے اس قدر ٹھوس دل ہو چکے تھے۔ 

اداکاروں کی تنہائی اور ذہنی بے سکونی کی سب سے بڑی وجہ ہمارا معاشرہ ہے، پاکستانی معاشرہ کبھی بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو قبول نہیں کرتا، بظاہر ایسا ہی کچھ اداکارہ کے ساتھ بھی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، اداکارہ کے والد اور بھائی کا رویہ اور ان سے حال چال نہ پوچھنے کا رویہ یہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ اداکارہ کو ان کے گھر والوں نے اور ان کے معاشرے نے کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا جس کے باعث وہ ایک فلیٹ میں پچھلے چھ سالوں سے تنہا زندگی بسر کر رہی تھیں، اس سے قبل عائشہ خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا وہ بھی کراچی کہ ایک فلیٹ میں پچھلے آٹھ سالوں سے اکیلی رہ رہیں تھیں اور ایک ہفتے بعد ان کی موت کی اطلاع حاصل ہوئی، ادکارہ عائشہ خان کی ڈیڈ باڈی کو بھی ورثا نے لینے سے انکار کر دیا تھا اور ان کی لاش چھ دن تک (چھپا سنٹر) کے سرد خانے میں پڑی رہی، ہمارے معاشرے میں قبولیت کا فقدان بہت سارے لوگوں کی جانیں لے چکا ہے، شوبز سے وابستہ ہر دوسرے فرد کا یہی معاملہ ہے اور ہر دوسرا فرد ذہنی کوفت اور تنہائی کا شکار ہے۔

معاشرے میں قبولیت کے فقدان کی ایک بڑی وجہ انتہا درجے کی مذہب پسندی اور دینی تعلیم سے لاعلمی ہے، کیونکہ مذہبی ہونا اور مذہب پسند ہونا دو مختلف آراء ہیں کیونکہ مذہب پسند ہمیشہ شدت پسند ہوتا ہے اور شدت پسندی سے معاشرے میں دباؤ پیدا ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اور خاص کر خواتین اسی شدت پسندی کے باعث گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایک آزاد اور خودمختار زندگی سے محروم ہو جاتی ہیں، اگر معاشرے میں تعلیم کو عام نہ کیا گیا تو ایسے واقعات آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملیں گے، اداکارہ کے اہل خانہ کی بددلی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اداکارہ ذہنی طور پر ناتواں ہو چکی تھیں اور یہی ذہنی کوفت ان کی موت کا سبب بھی بنی۔

Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Previous post پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، انڈیکس میں 1027 پوائنٹس کا اضافہ
Next post ایران کے ساتھ جو امریکا اور اسرائیل نے ایک بار کیا وہ دو تین بار بھی کرسکتے ہیں، نیتن یاہو