قومی بجٹ 2025-26: معیشت کی راہ میں اُمید کی کرن یا چیلنجز کا سامنا؟

Read Time:5 Minute, 6 Second

 9 جون 2025 کو وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ 2025-26 پیش کیا۔ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا کہ جب پاکستان سنگین اقتصادی بحرانوں، سیاسی عدم استحکام اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ بجٹ کا مجموعی حجم 18.87 کھرب روپے رکھا گیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔ اس بجٹ میں 9.25 کھرب روپے کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف، 2.5 کھرب روپے کا سرکاری ترقیاتی پروگرام اور 1.5 کھرب روپے کا دفاعی بجٹ شامل ہے۔

اقتصادی اہداف اور مالیاتی حکمت عملی

حکومت نے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے 2.4 فیصد سے بہتر ہے۔ اس کے علاوہ مالیاتی خسارے کو 5.9 فیصد تک محدود رکھنے اور بنیادی خسارے کو 2 فیصد تک کم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر حالیہ جنگی تنازعات اور ملکی معیشت کے پیشِ نظر اس بجٹ کے دونوں رُخ دیکھنا بہت ضروری ہے تاہم، یہ اہداف حاصل کرنا اس وقت کے اقتصادی حالات میں مشکل ہو سکتا ہے۔

ٹیکس اصلاحات اور محصولات کا ہدف

حکومت نے ٹیکس وصولیوں میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ، نئی ٹیکس سلیبز کا تعارف اور ٹیکس نیٹ ورک کی توسیع شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، زرعی شعبے، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے تاہم، ان اقدامات کے اثرات کا انحصار ان کی مؤثر عمل درآمد پر ہے۔

دفاعی بجٹ اور قومی سلامتی

دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 2.55 کھرب روپے تک پہنچایا گیا ہے۔ یہ اضافہ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔ تاہم، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ دفاعی اخراجات میں اضافے سے سماجی شعبوں جیسے تعلیم، صحت اور زراعت کے بجٹ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، مگر وقت کی نذاکت اور ملکی سلامتی کے حالات کے پیشِ نظر اس وقت افواجِ پاکستان کے بجٹ میں توسیع کرنا میرے خیال میں ملکی سلامتی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا،پاکستان کا دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ ملکی سلامتی کے لیے ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی چیلنجز اور سویلین شعبوں کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ آنے والے دنوں میں اس بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس کے اثرات مزید واضح ہوں گے۔ 

سماجی شعبوں کی صورتحال

تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبوں کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن یہ اضافہ ان شعبوں کی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ تعلیم کے شعبے کے لیے 1.5 کھرب روپے، صحت کے لیے 1.2 کھرب روپے اور زراعت کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ زراعت کے شعبے کے لیے بجٹ کو انتہائی غیر سنجیدہ لیا جا رہا ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے کہ جس کا ستر فیصد سے زائد علاقہ زراعت کے لیے موزوں ہے اور ایسے میں زراعت کے لیے فقط پانچ ارب روپے مختص کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مستقبل میں زراعت کے شعبے میں توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں غریب طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گی جس کے اثرات شدید بھیانک ہوں گے۔ زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ عوامی فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جا سکے۔

توانائی کے شعبے میں اصلاحات

توانائی کے شعبے کے لیے 253 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے 65 ارب روپے بجلی کی ترسیل کے نظام کی بہتری اور 21 ارب روپے جامشورو پاور پلانٹ کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ، سولر پینلز کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے درآمدی ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے پیداواری لاگت میں کمی اور توانائی کی کمی پر قابو پایا جا سکے گا۔

سبسڈیز اور عوامی فلاح

حکومت نے عوامی فلاح کے لیے مختلف سبسڈیز کا اعلان کیا ہے، جن میں یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے 65 ارب روپے، رمضان پیکیج کے لیے 10 ارب روپے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 592 ارب روپے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عوام کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ایک عام پاکستانی کے لیے بجٹ کا سب سے اہم پہلو روزمرہ اخراجات، مہنگائی اور روزگار کے مواقع سے جڑا ہوتا ہے مگر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی جھلک اس بجٹ میں کم نظر آتی ہے۔ بجلی، گیس، اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے سے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

مجموعی تجزیہ اور آئندہ کی راہ

وفاقی بجٹ 2025-26 ایک متوازن اور جامع مالیاتی منصوبہ نظر آتا ہے، جس میں اقتصادی ترقی، سماجی بہبود اور قومی سلامتی کے شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ تاہم، اس کے مؤثر نفاذ اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے حکومت کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، جن میں ٹیکس اصلاحات کی مؤثر عمل درآمد، دفاعی اخراجات اور سماجی شعبوں کے درمیان توازن اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات شامل ہیں۔ اگر حکومت نے ان چیلنجز پر قابو پایا تو یہ بجٹ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے تاہم، اس کے لیے سیاسی استحکام، حکومتی عزم اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں بجٹ کی کچھ مثبت جھلکیاں ضرور نظر آتی ہیں مگران کے لیے مختص رقوم اب بھی زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں۔ توانائی، سڑکوں، اور مواصلاتی نظام کے لیے مختص فنڈز ترقی کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کا شفاف استعمال یقینی بنایا جائے۔

Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Previous post بھارتی شہر احمد آباد میں مسافر طیارہ گر کر تباہ، 250 سے زائد افراد سوار تھے
Next post عالمی صنفی فرق رپورٹ 2025 میں پاکستان کی کارکردگی: ستون وار موازنہ