
مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: الیکشن کمیشن نے 41 میں سے 39 اراکین کی حد تک غلطی کی، جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دینے کے خلاف دائر نظرثانی کیس کی سماعت آض پیر کو بھی ہوئی۔ سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ نے کی، جس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل دیے۔ سماعت کے آغاز پر فیصل صدیقی نے جسٹس امین الدین کو حج کی مبارکباد دی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی ایک آبزرویشن کے بعد فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالت کے 100 صفحات پر مشتمل فیصلے کی 13 صفحات پر سمری تیار کی گئی ہے۔ جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا، ”اگر آپ نے میرے کمنٹ دل پر لیے تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں۔“ فیصل صدیقی نے جواباً کہا کہ ”میری بیوی نے بھی سن لیا تھا، اس نے ڈانٹا کہ کیا کررہے ہیں۔“ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے تبصرہ کیا، ”تو پھر آپ نے جسٹس کاکڑ کی بات تو نہ مانی۔“
سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے کہا کہ ریلیف سنی اتحاد کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا، اور فیصل صدیقی سے پوچھا کہ کیا وہ بطور وکیل سنی اتحاد کونسل، عدالت کے فیصلے سے متفق ہیں؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا، ”جی، میں اس فیصلے سے متفق ہوں۔“ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی چھوڑی جا سکتی تھیں اور وکیل سے اس نکتے پر معاونت مانگی، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ پہلے اکثریتی فیصلہ پڑھنا چاہتے ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مفاد مخصوص نشستوں کے معاملے میں ایک ہی تھا، اس لیے انہیں پی ٹی آئی کو نشستیں ملنے پر اعتراض نہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ”جب آپ کا اور پی ٹی آئی کا آئین اور پارٹی ڈھانچہ مختلف ہے تو مفاد ایک کیسے ہو سکتا ہے؟“ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ ”پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مفاد مخصوص نشستوں میں ایک ہی تھا۔“
فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ حالات ایسے تھے کہ ممبران کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کئی سوالات اٹھائے کہ کیا کسی امیدوار نے خود ان حالات کا تذکرہ کیا؟ کیا کسی نے کہا کہ وہ مجبور تھا یا کوئی بہانہ بنایا گیا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ نکتہ اہم نہیں کہ کسی فریق نے خود عدالت سے رجوع کیا یا نہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے مکمل انصاف کا تقاضہ کیا، اور یہ بھی سوال ہے کہ آیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت انتخابات لڑے یا نہیں۔ جسٹس امین الدین نے جواباً کہا کہ یہ تو عدالت کے سامنے سوال ہی نہیں تھا۔ تاہم فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریتی فیصلے نے اس نکتے کو طے کیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے نشاندہی کی کہ فیصلہ 13 جنوری کو آیا جبکہ کاغذات نامزدگی دسمبر میں جمع ہوئے تھے، تب بھی کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت اختیار کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنچ کا سوال یہ ہے کہ انتخابی نشان لے کر بھی پی ٹی آئی جماعت تو موجود تھی۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کا تنازع تو یہ ہے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کر لیا۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا حق دعویٰ مسئلہ نہیں ہے، وہ نہ سنی اتحاد کونسل ہیں، نہ پی ٹی آئی بلکہ وہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ جو ناانصافی سپریم کورٹ نے پہلے کی، اس کا مداوا مخصوص نشستوں کے فیصلے نے کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسر آزاد امیدوار ڈکلئیر نہیں کرسکتا، تو جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں تو سپریم کورٹ کو کیسے حاصل ہے کہ وہ آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا قرار دے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اس کا جواب جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے تصور کیا کہ پی ٹی آئی کے 39 امیدواروں نے جوائن ہی نہیں کیا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ نے بھی ٹائم لائن تبدیل کی ہے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کون سی ٹائم لائن؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی ٹائم لائن میں تبدیلی ہونی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر انہوں نے اپنے فیصلے میں کوئی غلطی کی ہے تو وہ تصحیح کے لیے تیار ہیں۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا، ”ہم تو آپ کی ججمنٹ کو ڈیفینڈ کریں گے، آپ جو بھی کہیں۔“
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 41 اراکین کو کسی پارٹی کا امیدوار ڈیکلئیر نہیں کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان 41 میں سے صرف 39 کی حد تک غلطی کی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریت نے تسلیم کیا کہ 39 امیدواران کی حد تک بھی غلطی ہوئی ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ گیارہ ججز نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ان ججز کا اتفاق صرف ان ارکان تک تھا جنہوں نے کاغذات نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی کا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف چودہ پی ٹی آئی امیدوار تھے جنہوں نے پارٹی سرٹیفیکیٹ جمع کرایا تھا، لیکن ہم نے فرض کیا کہ انہوں نے جمع کرایا ہو اور وہ کہیں ادھر ادھر ہوگیا ہو، اس لیے ہم نے 39 ارکان کو تصور کیا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے مابین تعداد پر اختلاف تھا۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ایک امیدوار چار چار کاغذات نامزدگی بھی داخل کر سکتا ہے، یہ ایشو عدالت کے سامنے نہیں تھا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ 2 فروری کے الیکشن کمیشن کے آرڈر میں قرار دیا گیا کہ آزاد ارکان پی ٹی آئی ارکان نہیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ یہ آرڈر تو صرف ایک رکن کے لیے تھا، لیکن فیصل صدیقی نے بتایا کہ اسی آرڈر کا تمام ریٹرننگ افسران نے باقی پی ٹی آئی ارکان پر اطلاق کیا۔ جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ جب انتخابی نشان نہیں ملا تو وہ لسٹ میں کیسے شامل ہوئے، اور کیا یہ معاملہ چیلنج کیا گیا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ متاثرہ شخص کو تھوڑا تو فائدہ دیں۔
فیصل صدیقی نے فلسطینیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”جنہوں نے ہماری آنکھیں نکالیں، وہی ہم پر اندھا ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔“ جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا، ”آپ ہمارے پاس نہیں آئے، پھر بھی اتنا فائدہ دیا، اگر آپ آتے تو ہم کیا نہ کرتے۔“
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تمام ججز نے فیصلہ دیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملتیں، اور تمام ججز نے سوال اٹھایا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نشستوں کی حقدار ہے یا نہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ اسی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ”جو پارٹی الیکشن میں حصہ نہ لے اور کوئی سیٹ نہ جیتے، وہ مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔“ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کسی رکن پر کسی پارٹی کو جوائن کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں پندرہ دن دینے اور پی ٹی آئی ارکان کی تعداد پر اختلاف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثریتی ججز نے تین دن کے وقت کو بڑھا کر پندرہ دن کر دیا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ وقت میں اضافہ اس وقت کیا جاتا ہے جب وقت استعمال نہ کیا گیا ہو، اضافہ وقت استعمال کرنے کے بعد نہیں ہوتا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 254 ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے لیے ہی ڈرافٹ ہوا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا، ”یہ تو پھر کرشمہ ہے۔“ جسٹس مندوخیل نے کہا، ”اگر آپ کا یہ موقف ہے تو پھر تو آپ کی درخواست مسترد ہونی چاہیے۔“ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا، ”آرٹیکل 254 دراصل آپ کے خلاف لکھا ہوا ہے۔“
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمے کا فیصلہ اپنے حالات و واقعات پر ہوتا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 254 اسے پروٹیکٹ کرتا ہے جس کو غلط طور پر جوائن کرنے کے لیے کہا گیا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے تصور کیا کہ ان 39 ارکان نے کسی کو جوائن نہیں کیا، باقی کو آزاد کریں یا نہ کریں۔
سماعت کے اختتام پر مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، اور وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی اپنے دلائل کل بھی جاری رکھیں گے۔
Average Rating