زرعی آمدن پر ٹیکس، کاشتکاروں کی گندم کی کاشت روکنے کی دھمکی

Read Time:3 Minute, 33 Second

کراچی: تجزیہ:فرحان بخاری۔ سندھ کے کسانوں کی نمائندہ تنظیم نے اپنے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گندم کی کاشت بندکریں اور زرعی آمدنی پر نئے ٹیکس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی حمایت کریں، جو پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

اس فیصلے سے پاکستان کی گندم کی فصل کے مستقبل اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تعلقات پر نئی تشویش نے جنم لیا ہے، پاکستان نے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے جو شرائط منظور کی تھیں، ان میں زرعی آمدنی پر ٹیکس بھی شامل تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے صوبوں کو زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد اور وصول کرنا تھا۔

پاکستان بھر میں کسانوں کو 2024 کے اوائل میں شدید نقصان ہوا جب گندم کی قیمتیں ایک تہائی سے زیادہ گر گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پنجاب حکومت نے اچانک اس قیمت پر گندم خریدنے سے انکار کر دیا جس کا وعدہ پہلے کیا گیا تھا، اس فیصلے نے ملک بھر میں گندم کی قیمت گرادی۔

پاکستان میں گندم کی زیر کاشت کل رقبے کا تقریباً تین چوتھائی حصہ پنجاب میں ہے، جب کہ سندھ میں گندم کاشت ہونے والا رقبہ ملک کے کل رقبے کا صرف 15 فیصد سے بھی کم ہے لیکن سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) کی جانب سے اس ہفتے جاری ہونے والی وارننگ نے گندم کے کاشتکاروں میں بڑھتی ہوئی ناراضی کو اجاگر کیا ہے۔

ایس سی اے نے اپنے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ زرعی آمدنی پر عائد نئے ٹیکس کی ادائیگی نہ کریں اور اس ٹیکس کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاری کریں۔ایس سی اے کے سربراہ سید ندیم قمر نے ہم نیوز سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں یقین ہے کہ ہمارا کیس مضبوط ہے۔ پاکستان میں آج زرعی شعبہ منافع بخش نہیں رہا اور صوبوں میں زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے اور اس کی وصولی کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔دنیا کے کئی ممالک اب بھی زراعت کو سبسڈی دے رہے ہیں، لیکن پاکستان میں تمام زرعی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ شعبہ منافع بخش نہیں رہا۔

اس سال کے شروع میں وفاقی حکومت کو سندھ میں دریائے سندھ سے پانی لینے والی نئی نہریں تعمیر کرنے کے منصوبے روکنے پڑے تھے، جب کسانوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔

سندھ کے ایک بڑے زمیندار نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 2024 میں جب گندم کی قیمتیں گر گئیں، اس وقت کسانوں نے اپنی فصل میں بڑی سرمایہ کاری کی تھی۔ قیمتوں میں کمی کے بعد وہ اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر سکے۔ بہت سے کسان اب بھی گزشتہ سال کی فصل کیلئے خریدے گئے قرض پر کھاد اور دیگرسامان کی ادائیگی نہیں کر سکے ہیں۔

ایس سی اے کے سربراہ سید ندیم قمر کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم زرعی آمدنی پر ٹیکس کو دو بنیادوں پر عدالت میں چیلنج کرے گی، پہلی یہ کہ جب کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے تو غریب کسانوں کے لیے اتنی آمدنی بن ہی نہیں سکتی کہ وہ ٹیکس کے دائرے میں آئیں۔دوسری بنیاد یہ کہ اگرچہ صوبوں نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے، لیکن آمدنی کے تخمینے اور ٹیکس کی وصولی کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد میں ایک سینئر سرکاری اہلکار نے ہم نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گندم پر سبسڈی ختم کرنا اور زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا، دونوں شرائط آئی ایم ایف سے لیے گئے 7 ارب ڈالر کے قرض کا حصہ تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ گندم یا کسی اور فصل پر سبسڈی دے کر کسانوں کی آمدنی بہتر بنا سکے۔

زرعی شعبے سے متعلق سندھ میں حالیہ تنازع ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حالیہ شدید بارشوں سے ہونے والی تباہی نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے، جس کے باعث موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں، جیسے کہ پہلے سے کہیں زیادہ درجہ حرارت۔

Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Previous post وزیراعلیٰ پنجاب کا گاؤں میں پختہ گلیاں، سڑکوں کی بحالی اورچلڈرن پارک بنانے کا منصوبہ
Next post پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تاریخی اضافہ، چین سرِفہرست