
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے عروج و زوال کی داستان
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے عروج و زوال کی داستان
پی آئی اے (پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن) جس کا پہلا نام اورینٹ ائیر ویز تھا جسے ۱۹۴۶ میں کلکتہ میں قائم کیا گیا، تقسیمِ برصغیر سے پہلے اورینٹ آئیرلائن ویز برصغیر کی پہلی اور واحد ائیر لائن تھی جسے چند مسلم کاروباری خاندانوں نے قائم کیا تھا اور اس ائیر لائن کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا، قیامِ پاکستان کے فورًا بعد ہی اورینٹ ائیر ویز نے اپنا ہیڈ کوارٹر بھارت کے کولکتہ سے پاکستان کے کراچی میں منتقل کر دیا جسے بعد میں حکومتِ پاکستان نے ۱۹۵۵ میں ( پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ) کا درجہ دے دیا، اس وقت یہ پاکستان کی واحد ائیر لائن تھی اور یہ ملک کی ضروریات کے لیے ناکافی تھی، ۱۹۵۶ میں نئے جہاز خریدے گئے۔
پی آئی اے کسی دور میں ملکِ پاکستان کا فخر ہوا کرتی تھی اور ۸۰ کی دہائی میں اسے دنیا کی تیز ترین اور جدید ائیرلائنز میں شامل کیا گیا۔
پی آئی اے کے مطابق ” اس ائیر لائن نے سن ۱۹۶۲ میں تاریخی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لندن سے کراچی تک کا ایک طویل سفر محض ۴۷ منٹ میں طے کیا “
اُس وقت یہ پاکستان کہ لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا اور اس تیز ترین اور بہترین ائیر لائن کو پوری دنیا میں جانا جانے لگا، پی آئی اے دنیا کی سب سے پہلی اور ایک ایسی ائیر لائن بنی کے جس نے سب سے پہلے بوئنگ ۷۴۷ اور ائیر بیس A300 جیسے جدید طیارے اپنی فلیٹ میں شامل کئے، ایک ایسی ائیر لائن کہ جس نے سن ۱۹۸۵ میں امارات ائیرلائن کے قیام کے دوران تکنیکی اور انتظامی مدد فراہم کی اور امارات کو ابتدائی پروازوں کے لیے جہاز بھی فراہم کئے، ۱۹۷۳ میں ائیر مالٹا جیسی پروازوں کو تکنیکی مدد فراہم کی اور اس کی ابتدائی پروازوں کے لیے جہاز بھی فراہم کیے اور ائیر مالٹا کے عملے کی تربیت کا ذمہ بھی اپنے سر لیا، ۱۹۷۱ کے بنگلا دیش کے قیام کے بعد پی آئی اے نے بیمن بنگلادیش ائیر لائن کے قیام اور اُس کے آغاز میں مدد فراہم کی، بیمن بنگلا دیش ائیر لائن کے پائلٹس اور فلائٹ آپریشن کے نظام میں مدد فراہم کی اسی طرح سری لنکن ائیر لائن اور بحرین کی گلف ائیرلائن کے قیام میں بھی مدد فراہم کی۔
حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولیاں طلب کرنے کا فیصلہ کیا، حکومت کی منظوری کے بعد نجکاری کے معاملے پر تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا گیا، نجکاری کمیشن حکام نے کہا ” کہ نجکاری کمیشن حکام نے پی آئی اے کی پہلی بولی کو مسترد ہونے اور بولی دہندگان کی جانب سے کئے گئے مطالبات سے متعلق اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کر دیا، پہلی بولی حکومت کی توقعات کے برخلاف تھی فقط ایک سرمایہ کار کی جانب سے دس ارب روپے کی بولی موصول ہوئی“
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ” نجکاری کے پہلے مرحلے کے دوران خریداروں کی جانب سے عدم دلچسپی کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں جن میں نئے طیاروں کی خریداری پر ۱۸ فیصد جی ایس ٹی اور قومی ائیر لائن کے قرضے شامل ہیں“
پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کی سینیٹر شیری رحمان کے توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا گیا کہ ” غیز واضح نجکاری منصوبے کے تناظر میں پی آئی اے طیاروں کی وضاحت دی جائے، پی آئی اے کے طیاروں کا ہوا میں رہنا بہت ضروری ہے، اس وقت قومی ائیر لائن کے ۳۴ میں سے ۱۹ جہاز ہوا میں ہیں اور باقی تمام طیارے گراؤنڈ میں موجود ہیں جو ائیر لائن کو اربوں روپوں کا نقصان دے رہے ہیں، ہر سال فقط یورپی ممالک سے ۸۴ ارب کا ریونیو ملتا تھا جو کہ فلائٹس پر پابندی کے بعد دن بہ دن نقصان کی جانب بڑھ رہا ہے“
ایک وہ دور تھا کہ جب پی آئی اے کو ملک کا فخر سمجھا جاتا تھا اور ایک آج کا وقت ہے حکومتِ پاکستان کی ناکام پالیسیوں کے باعث ائیر لائن کو گزشتہ چار سالوں میں ہر سال ۸۷ ارب روپے کے حساب سے نقصان ہوا ہے اور حکومت اس حد تک مجبور و بے بس ہو چکی ہے کہ وہ قومی ائیر لائن کو سرمایہ کاروں کے ہاتھوں بیچنے کی بات کر رہی ہے اور کوئی بھی سرمایہ کار مناسب بولی لگانے کو تیار نہیں ہے، حال ہی میں ساڑھے چار سالوں کی بندش کے بعد پی آئی اے کی لندن اور دیگر یورپی ممالک کے لیے دوبارہ سے پروازوں کا آغاز ہوا ہے امید ہے کہ اس آغاز کے بعد پی آئی اے دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو پائے گی اور ملک کی معاشی صورتِ حال کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔
Average Rating