ایک گہرا تعلق :چین پاکستان اقتصادی راہداری

ایک گہرا تعلق :چین پاکستان اقتصادی راہداری

Read Time:4 Minute, 56 Second

!ایک گہرا تعلق :چین پاکستان اقتصادی راہداری

گزشتہ دس برسوں سے علاقائی روابط کا ایک فریم ورک رہی ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف چین اور پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ افغانستان، ایران، بھارت اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے بھی بے پناہ فوائد رکھتا ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری ایک محض دوستی سے آگے بڑھ کر ایک گہرا تعلق ہے، جو دونوں ممالک کے اقتصادی اور سماجی فوائد سے جڑا ہوا ہے۔

چین-پاکستان اقتصادی راہداری نے پاکستان کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ہر نئی حکومت اس مسئلے کے خاتمے اور سماجی ترقی کے وعدے کرتی ہے، لیکن عملی طور پر ہمیشہ ایسا نہیں ہوا۔ گزشتہ 70 سالوں میں پاکستان کبھی ایشیا کی طاقتور معیشتوں میں شمار ہوا، تو کبھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ موجودہ وقت میں جو CPEC منصوبہ پاکستان کے لیے فعال ہے، وہ آنے والے سالوں میں حالات کا رخ مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔

CPEC کا ابتدائی مقصد 1990 کی دہائی میں بحیرہ عرب کو چین کے مغربی علاقوں سے جوڑنا تھا۔ اس منصوبے کی پہلی تجویز 1999 میں دی گئی تھی۔ گوادار بندرگاہ کی تعمیر اکیسویں صدی کے آغاز میں مکمل ہوئی، اور 2010 کے بعد متعدد مفاہمتی یادداشتیں (MoUs) دستخط ہوئیں۔ 20 اپریل 2015 کو چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا دورہ کیا، جہاں دونوں ممالک نے 26 ارب ڈالر مالیت کے CPEC منصوبے پر اتفاق کیا۔ اس وقت اس منصوبے کو پاکستان کا سب سے اہم منصوبہ قرار دیا گیا۔

اکیسویں صدی سے پہلے پاکستان متعدد اندرونی اور بیرونی بحرانوں کی وجہ سے عالمی سطح پر کمزور ہو چکا تھا، لیکن CPEC منصوبے نے خطے کو نئی امید دی اور پاکستان کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دی۔ دیرینہ حریف بھارت نے مسلسل اس منصوبے کی مخالفت کی اور متعدد طریقوں سے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر بھارت کی یہ کوششیں ناکام رہیں۔

چین-پاکستان اقتصادی راہداری علاقائی ترقی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ منصوبہ علاقائی روابط، توانائی مراکز، لاجسٹک حبز، تجارت، امن و استحکام، ثقافتی ہم آہنگی، سرمایہ کاری کے مواقع، صنعتی تعاون، مالی اشتراک، زرعی شراکت، سیاحت، تعلیم، انسانی وسائل، صحت اور عوامی روابط کو فروغ دے گا۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ روزگار کے مواقع بڑھائے گا، علاقائی سیکیورٹی اور استحکام میں بہتری لائے گا، اور بھوک و غربت کے خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔

CPEC کا دوسرا مرحلہ، جسے “CPEC 2.0” کہا جاتا ہے، شروع ہو چکا ہے۔ اس مرحلے میں حکومت سے حکومت کی سطح پر تعلقات کے بجائے کاروباری سطح پر روابط کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس میں پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز میں برآمدی صنعتوں کے قیام پر زور دیا جا رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان کا ہدف ہے کہ برآمدات میں اتنا اضافہ ہو کہ ملک غیر ملکی زرِ مبادلہ کے بحران سے نکل آئے، IMF قرضوں کی ضرورت ختم ہو، اور معیشت ایک مستحکم اور پائیدار راستے پر گامزن ہو جائے۔

اس منصوبے کی نزاکت کے پیش نظر اندرونی اور بیرونی خطرات بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد CPEC پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری اکثر تحریک طالبان پاکستان (TTP) پر عائد کی گئی ہے، اور پاکستان کئی بار تصدیق کر چکا ہے کہ افغانستان سے کیے گئے حملوں میں کئی چینی کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ابتدائی طور پر خیال کیا گیا کہ ان حملوں میں افغان طالبان ملوث ہیں، تاہم افغان طالبان نے چین کو اپنا دوست قرار دیا ہے اور چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے کر یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔

اس منصوبے کا ایک اہم حصہ گوادر ایئرپورٹ ہے۔ پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کے مطابق 4,300 ایکڑ پر محیط نیا گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ CPEC کا ایک مرکزی منصوبہ ہے۔ یہ ایئرپورٹ اب فعال ہو چکا ہے۔ اس کا 3.6 کلومیٹر طویل رن وے بڑے طیاروں جیسے بوئنگ اور ایئر بس کے اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کل 4,300 ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ پاکستان کا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے۔ چین نے اس منصوبے کے لیے 230 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں، اور یہ منصوبہ دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ جلد ہی یہ ایئرپورٹ بین الاقوامی پروازوں کے لیے بھی کھل جائے گا، جو پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت میں مزید اضافہ کرے گا۔

اب تک CPEC کے تحت 27 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جن کی کل مالیت 19 ارب ڈالر ہے، جبکہ 63 منصوبے، جن کی مالیت 35 ارب ڈالر سے زائد ہے، ابھی زیر تکمیل ہیں۔ China Three Gorges South Asia Investment Ltd کی رپورٹ کے مطابق مکمل شدہ منصوبوں میں سات کا تعلق بنیادی ڈھانچے، گیارہ کا توانائی کے شعبے سے ہے۔ اس کے علاوہ گوادر میں تین بندرگاہی منصوبے اور چھہ فلاحی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔

پاکستان کا ہدف ہے کہ 2030 تک سڑکوں اور ریلوے کے نظام کو جدید بنایا جائے، نئی آپٹیکل فائبر نیٹ ورکس قائم کی جائیں، گوادر اور دیگر بندرگاہوں کو مضبوط بنایا جائے، تجارت کو فروغ دیا جائے، چار بڑے شہروں میں اربن ماس ٹرانزٹ منصوبے مکمل کیے جائیں، اور 17,045 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے۔ اس کے علاوہ متعدد کاروباری مراکز، طبی ادارے اور تعلیمی ادارے بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ کچھ منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ کچھ پر کام جاری ہے۔

CPEC ماسٹر پلان 2030 تک پاکستان کے اقتصادی مستقبل کی سمت متعین کرے گا، اور یہ ملک کو ایک بار پھر ایشیا کی بڑی معاشی طاقت بننے کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف اقتصادی ترقی میں انقلاب لائے گا بلکہ جدید انفراسٹرکچر فراہم کر کے نقل و حمل اور دیگر لاجسٹک مسائل کا مؤثر حل بھی پیش کرے گا۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری سے نہ صرف چین اور پاکستان کی معیشتیں مستحکم ہوں گی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور دوستانہ تعلقات بھی مزید فروغ پائیں گے

Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Previous post پہلگام حملے پر جواب دینا میرا فرض ، جو آپ چاہتے ہیں وہ ضرور ہوگا،  راج ناتھ سنگھ کی دھمکی
Next post پاک بھارت کشیدگی ، ایران کے وزیر خارجہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے